۲ آذر ۱۴۰۳ |۲۰ جمادی‌الاول ۱۴۴۶ | Nov 22, 2024
عادل فراز کی کتابوں کی رسم اجرا کی تقریب

حوزہ/ عادل فراز کی کتابوں کی رسم اجرا کی تقریب میں متعدد ادیبوں اور دانشوروں کا اظہار خیال،شہر کی معزز شخصیات نے پروگرام میں شرکت کی۔

حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق،لکھنؤ/ رجحان لٹریری سوسائٹی اور ملت ایجوکیشنل ٹرسٹ کے زیر اہتمام ادیب اور صحافی عادل فراز کی دوکتابوں کی رسم اجرا کی تقریب کا انعقاد دفتر مجلس علمائے ہند واقع حسینیہ غفران مآب چوک لکھنؤ میں ہوا۔

تقریب رونمائی میں علما، ادبا،شعرا،دانشوروں اور شہر کی معزز شخصیات نے شرکت فرمائی ۔صدارت کے فرائض معروف ادیب پروفیسر انیس اشفاق نے انجام دیے ۔پروگرام کا آغاز تلاوت قرآن مجید سے قاری معصوم مہدی نے کیا ۔تلاوت قرآن مجید کے بعد خصوصی مہانوں کے حضور گل پیشی کی رسم ادا کی گئی۔اس کے بعد عادل فراز کی دو کتابوں ’’عہد اکبری میں علما کے علمی و سیاسی نقوش‘‘ اور ’’شعرنامۂ کربلا ‘‘ کی رسم اجرا بدست صدر جلسہ پروفیسر انیس اشفاق ،حجۃ الاسلام مولانا نثار احمد زین پوری،معروف ادیب و صحافی شاہنواز قریشی ،ڈاکٹر وضاحت حسین رضوی ،روز نامہ صحافت کے ایڈیٹر امان عباس،روزنامہ انقلاب کے ریذیڈنٹ ایڈیٹر جیلانی خان علیگ،روزنامہ آگ کے ایڈیٹر اکبر علی ،ڈاکٹر روشن تقی،پروفیسر ماہ رخ مرزا سابق وائس چانسلر خواجہ معین الدین یورسٹی اور دیگر اہل علم کے ذریعہ انجام پائی ۔رسم اجرا کے بعد عادل فراز نے دونوں کتابوں کے سبب تصنیف و تالیف کو بیان کرتے ہوئے تمام معزز مہمانوں کا خیر مقدم کیا ۔اس کے بعد باقاعدہ کتابوں کے تعارف کا سلسلہ شروع ہوا۔

نیا دور لکھنؤ کے سابق مدیر ڈاکٹر وضاحت حسین رضوی نے افتتاحی تقریر کرتے ہوئے ’’ شعرنامۂ کربلا‘‘ میں شامل کئے گئے مراثی کی اہمیت و عظمت کو بیان کیا ۔انہوں نے کلاسیکی و جدید مرثیہ کی فن و ہئیتی خوبیوں پر بھی روشنی ڈالی ۔انہوں نے موضوعاتی و ہئیتی لحاظ سے جدید اور کلاسیکی مرثیے کے فرق کو بھی بخوبی واضح کیا ۔انہوں نے کہاکہ جس طرح اردو کو فقط مسلمانوں کی زبان سمجھ لیا گیا ہے اسی طرح مرثیہ کو بھی ایک مسلک سے مخصوص کردیا گیا ،جس سے مرثیہ کو بہت نقصان پہونچا۔

روزنامہ آگ کے ایڈیٹر ڈاکٹر اکبر علی نے کتاب ’ ’عہد اکبری میں علما کے علمی و سیاسی نقوش‘‘ پر تبصرہ کرتے ہوئے کہاکہ عادل فراز نے اس کتاب میں بحسن و خوبی اکبر کے عہد کا احاطہ کیاہے ۔انہوں نے کہاکہ عادل فراز نے اس کتاب میں ابوالفضل ،فیضی اور دیگر علما کے علمی و سیاسی کردار کو اس طرح پیش کیاہے کہ جس میں جانبداری نظر نہیں آتی ۔مصنف نے بڑی دیانتداری اور ایمانداری سے اکبر کے عہد میں علما کی علمی و سیاسی فعالیت کو قلم بند کیاہے ،جس کے لئے عادل فراز مبارکباد کے مستحق ہیں ۔

روزنامہ انقلاب کے ریذیڈنٹ ایڈیٹر جیلانی خان علیگ نے اپنی تقریر میں کہاکہ کتاب لکھنا اپنے آپ میں ایک بڑا کام ہے خواہ کتاب ضخیم ہو یا اس کی ضخامت کم ہو ،البتہ کتاب اپنے متن کے لحاظ سے اہمیت کی حامل ہوتی ہے ۔انہوں نے کہاکہ ہر دور میں علما کے دو طبقے رہے ہیں ۔ایک طبقہ اپنے مفادکے لئے کوشاں رہتاہے اور دوسرا طبقہ قومی و ملّی مفادات کو پیش نظر رکھتاہے ۔اب یہ ہم پر منحصر ہے کہ ہم کس کی پیروی کررہے ہیں ۔ہمارے اندر اتنا شعور اور بصیرت ہونی چاہیے کہ ہمیں کس کی بات کو کتنی اہمیت دینا چاہیے ۔اکبر کے عہد میں بھی یہی صورتحال موجود تھی ۔دونوں کے طرح کے علما اور عہدیدار اس کے دربار سے وابستہ تھے یہی وجہ ہے کہ اکبر نظریاتی کشمکش کا شکار نظر آتاہے جس پر عادل فراز نے اچھی طرح روشنی ڈالی ہے ۔

روز نامہ صحافت کے ایڈیٹر امان عباس نے اپنی تقریر میں کہاکہ عادل فراز کی دونوں کتابیں وقت کی اہم ضرورت ہیں اور بڑی حد تک انہوں نے موضوعات کا حق اداکیاہے ،جس کے لئے میں انہیں مبارک باد پیش کرنا چاہتا ہوں ۔انہوں نے کہاکہ جب بھی مذہب کا استعمال اقتدار حاصل کرنے کے لئے ہوتاہے فتنے عالم وجود میں آتے ہیں ۔جب ایسا ہوتاہے تو علمائے سو حکومت کے ساتھ نظر آتے ہیںاور علما ئے حق اس صورتحال کے خلاف قیام کرتے ہیں ۔انہوں نے مزید کہاکہ علمائے سو ہمیشہ دین کو سیاست سے الگ کرنے کی کوشش کرتے ہیں ۔پہلی بار اس منافقت کو آیت اللہ خمینی ؒنے بے نقاب کیا اور کہاکہ دین سیاست سے جدا نہیں ہے ۔انہوں نے مرثیہ کی اہمیت پر سیر حاصل بحث کرتے ہوئے کہاکہ موجودہ زمانے میں مرثیے کو فروغ دینے کی ضرورت ہے ۔

نیادور کے سابق مدیر اور معروف صحافی شاہنواز قریشی نے تقریر کرتے ہوئے کہاکہ عادل فراز کی دونوں کتابیں جن کی رونمائی کی رسم ادا کی گئی ہے وہ ضخامت کے لحاظ سے بھی بھاری ہیں اور اپنے متن ،انداز فکراور حسن انتخاب کے لحاظ سے اہم ہیں ۔’’شعرنامۂ کربلا‘‘ اپنی نوعیت کا منفرد انتخاب ہےجس میں 74مرثیوں کوجمع کیا گیاہے۔انہوں نے کتاب’’ عہد اکبری میں علما کے علمی و سیاسی نقوش ‘‘ پر تبصرہ کرتے ہوئے کہاکہ تاریخ میں جو غلط فہمیاں ہیں ان کا ازالہ بھی بہت ضروری ہے ،اس سلسلے میں عادل فراز کی کتاب کا مطالعہ کرنا چاہیے ۔اس کتاب کے مطالعہ کے بعد بہت سی تاریخی غلط فہمیوں کا ازالہ ہوتاہے ۔انہوں نے ’’دین الہی ‘‘ پر تبصرہ کرتے ہوئے کہاکہ کوئی بھی حاکم مذہب کو فروغ نہیں دے سکتا۔حکمراں طبقہ مذہب کو اپنا آلۂ کار تو بناسکتاہے ،اس کے ذریعہ اقتدار تو حاصل کیاجاسکتاہے مگر حکومت مذہب کو فروغ اور دوام نہیں دے سکتی ۔

تقریب کے صدر معروف ادیب ،نقاد،ناول نگار اور استاذ پروفیسر انیس اشفاق نے بحیثیت صدر’’لکھنؤ کاموجودہ ادبی ماحول ،عادل فراز اور ان کی دو کتابیں ‘‘ کے موضوع پر فکر انگیز تقریر کی ۔انہوں نے کہاکہ ایک لکھنؤ کا موجودہ ادبی ماحول ہے اور ایک گذشتہ ادبی ماحول تھا ۔گذشتہ لکھنؤ میں کیسی کیسی نابغۂ روزگار شخصیات تھیں ،لیکن آج لکھنؤ میںسناٹا ہے ۔افسوس یہ ہے کہ اب تو اخبار کے ذریعہ ہمیں علم ہوتاہے کہ فلاں صاحب ادیب بھی ہیں ۔المیہ یہ ہے کہ علم سوز زمانے میں قلم فروش معاشرہ پنپ رہاہے ۔انہوں نے کہاکہ موجودہ زمانے میں مرثیہ کی صحیح خوانی کرنے والے لوگ کہاں ہیں ۔ایک عہد وہ تھاکہ جب مرثیہ خواں حضرات منبر پر پڑھنے سے پہلے مرحوم نیّر مسعود کےسامنے مرثیہ پڑھتے تھے تاکہ وہ منبر پر صحیح خوانی کرسکیں۔انہوں نے تقریر کے دوران کہاکہ مرثیہ ،داستان اور لکھنؤ سے ہماری تہذیبی شناخت ہے ۔یہ تین بڑی دولتیں ہیں جو ہمیں تہذیبی سطح پر روشناس کرواتی ہیں ۔انہوں نے کئی حوالوں کے ساتھ یہ بھی ثابت کیاکہ کس طرح مرثیہ کو تعصب کی عینک سے دیکھا جارہاہے ۔خاص طورپر انہوں نے کہاکہ مرثیہ کسی ایک مسلک کی جاگیر نہیں ہے بلکہ ہمارا ادبی و تہذیبی سرمایہ ہے جسے دوسروں کے سامنے اس تناظر میں پیش کرنے کی ضرورت ہے ۔انہوں میر انیس ؔ کے کلام کے فنی محاسن کا جائزہ لیتے ہوئے کہاکہ افسوس یہ ہے کہ ہم نے انیس کو پڑھا نہیںاس لئےہمیںان کے کلام کی خوبیوں کا اندازہ بھی نہیں ہے ۔مرثیہ ’’جب نوجواں پسر شہ دیں سے جدا ہو‘‘ کو پڑھیے تو معلوم ہوگا کہ انیس کےیہاں ڈرامہ نگاری اوج کمال پر ہے ۔ مرثیہ ’’ نمک خوان تکلم ہے فصاحت میری ‘‘ کا مطالعہ کیجیے تو کھلے گاکہ انیس سے پہلے’ حُسن ‘کا تصور کسی نے دیا ہی نہیں ۔مرثیہ ’’کنعان محمد کے حسینوں کا سفر ہے ‘‘ میںایسا مکالماتی انداز اختیار کیاگیاہے جس کی نظیر نہیں ملتی ۔عناصر چہار گانہ کا استعمال جیسا انیسؔ نے کیا کسی نے نہیں کیا ۔انہوں نے کہاکہ انیسؔ کے یہاں فنکارانہ فراست ہے،۔آج اور آج کے بعد کبھی انیس بے معنی نہیں ہوسکتے ۔انہوںنے انیس کی شاعرانہ عظمت اور مرثیہ کی ادبی و تہذیبی اہمیت پر بھی ناقدانہ و عالمانہ گفتگو کی ۔

صدر جلسہ پروفیسر انیس اشفاق نے دوسری کتاب ’’عہد اکبری میں علما کے علمی و سیاسی نقوش ‘‘ پر تبصرہ کرتے ہوئے کہاکہ یہ کتاب تاریخی متن اور تحقیقی حوالوں کے لحاظ سے اہمیت کی حامل ہے ۔اس کتاب میں عادل فراز کی سیاسی بصیرت بھی نظر آتی ہے ۔انہوں نے کہاکہ تاریخ حقائق کی جمع آور ی کا نام نہیں ہے بلکہ deduction of facts کا نام ہے ۔جب تک آپ تاریخ کو شبہ کی نگاہ سے نہیں دیکھیں گے حقیقت کی تہہ تک نہیں پہونچ سکتے ۔عادل فراز نے ایسے زمانہ میں اس کتاب کی تصنیف کی کہ جب ایک پورے عہد کو بدنام اور مشکوک کرنے کی کوشش کی جارہی ہے ۔اس کتاب میں اکبر کی معاصرانہ معنویت کو پیش کیا گیا ہے ۔کتاب کے متن سے اس کی اہمیت اور مصنف کی محنت کا اندازہ ہوتاہے کہ کس طرح اس کی خاکہ سازی کی گئی ہے ،کس طرح شقیں قائم کی گئی ہیں اور کس طرح اس کی ابواب بندی کی گئی ہے ۔انہوں نے کتاب پر تبصرہ کرتے ہوئے کہاکہ ظلم کے دامن میں پناہ لینے والےتو بہت ہیں مگر ظلم کے سامنے سینہ سپر ہونے والے کتنے ہیں ؟ ہم کاسۂ طلب لئے پھر رہے ہیں کہ حکومت کی طرف سے دعوت نامہ آئے اور ہم اسے بے شرط قبول کرلیں ۔ انہوں نےکتاب ’’عہد اکبری میں علما کے علمی و سیاسی نقوش‘‘ کو تاریخ میں ایک منفرد اور ممتاز کام قرار دیا۔

پروگرام میںمولانا نثار احمد زین پوری ،ڈاکٹرکلب سبطین نوری،ڈاکٹر ثروت تقی ،مولانا سرتاج حیدر زیدی،ڈاکٹر عارف عباس خواجہ معین الدین یونیورسٹی ،مولانا تسنیم مہدی زید پوری،محمد امیر عسکری،مولانا رضا امام ضرغام ،مولانامحمد عسکری خان ،حسن ابراہیم روزنامہ انقلاب،ڈاکٹر منور حسین خواجہ معین الدین یونیورسٹی ،مولانا شمس الحسن مدرسہ ناظمیہ،مولانا نظرعباس ،مولانا فیض عباس مشہدی،مولانا علی کبیر حسنی،ڈاکٹر عدنان عزیز،ڈاکٹر محمد مجیب ،مولانا شباہت حسین ،مولانا مکاتب علی خان،مولانا اصطفیٰ رضا ،مولانا عباس اصغر شبریز،مولانا علی ہاشم عابدی،مرثیہ خواں صبوحی زیدی،ڈاکٹر امانت حسین ،مولانا وصی عابدی ،نازش احمد افق اعظمی اور دیگر معزز افراد نے شرکت فرمائی ۔ نظامت کےفرائض جناب احمد رضا بجنوری نے انجام دیے ۔پروگرام کے اختتام پر عادل فراز نے تمام مہمانوں کی آمد پر شکریہ اداکیا۔

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .